-->

HAZRAT BEHLOL AND HAROON-UR-RASHID

حضرت بہلول دانا ؒاور خلیفہ ہارون الرشید

بہلول کا نام تو آپ نے ضرور سنا ہو گا جنہیں بہلول دانا بھی کہا جاتا ہے۔ آپ پانچویں عباسی خلیفہ ہارون الرشید کے دور (مارچ 766 ء سے مارچ 809ء) میں ایک فلاسفر، ولی کامل اور تارک الدنیا درویش کے طور پر پہچانے جاتے تھے۔ ان کا کوئی گھر یا ٹھکانہ نہیں تھا، شہر میں ننگے پاؤں پھرتے اور جس جگہ تھک جاتے، وہیں ڈیرہ ڈال لیتے۔ بعض لوگوں نے انہیں مجذوب بھی لکھا ہے کیونکہ وہ عشق الٰہی میں گم اور اردگرد کے ماحول سے بے خبر ہوتے تھے۔ بہت کم لوگوں کی طرف التفات کرتے لیکن جب کبھی عوام الناس کی طرف منہ کرتے تو حکمت و دانائی کی بہت ہی عجیب و غریب باتیں کرتے۔ کوفہ میں پیدا ہونے والے بہلول کا اصل نام وہب بن عمرو اور تعلق عرب قبیلے بنو امان سے تھا۔ ان کے والد چھٹے امام جعفر الصادق کے شاگرد تھے، لیکن کچھ وقت ساتویں امام موسیٰ کاظم کی صحبت میں بھی گزارا۔ بہلول کا شمار بھی امام موسیٰ کاظم کے پیرو کاروں میں ہوتا تھا۔ جب خلیفہ ہارون الرشید نے امام موسیٰ کاظم کو قید کرنے کے بعد ان کے تابعین کے خلاف کارروائیاں شروع کیں تو وہب اور کچھ دوسرے لوگوں نے امام سے قید خانے میں ملاقات کر کے آئندہ لائحہ عمل کے لیے ہدایات مانگیں۔
امام عالی مقام نے جواب میں صرف ایک لفظ ’ج‘ لکھ کر اپنے عقیدت مندوں کے حوالے کر دیا۔ ہر شخص نے ’ج‘ کو اپنے اپنے انداز میں لیا۔ کچھ نے اسے جلا وطن سمجھا اور بعض نے اس کے معنی جبل یعنی پہاڑوں میں روپوشی لیا، لیکن وہب نے اسے جنون یعنی مجنونیت میں تبدیل کر دیا۔ انہوں نے اپنی شاہانہ زندگی ترک کی اور پھٹے پرانے کپڑے پہن کر گلیوں میں نکل آئے۔ خلیفہ ہارون الرشید سے ان کی ملاقات 188 ہجری میں خلیفہ کے سفر حج کے دوران کوفہ میں ہوئی، جس کا ذکر امام ابن کثیر نے بھی کیا ہے۔ بہلول نے ہارون کو جو نصیحتیں کیں ان سے متاثر ہو کر وہ انہیں اپنے ساتھ بغداد لے آیا اور پھر بہلول کا ٹھکانہ بغداد کی گلیاں ہی رہیں۔ بہلول کا مزار بھی بغداد میں ہی ہے جس کے ایک گوشے کے بارے میں مشہور ہے کہ وہاں سکھ مذہب کے بانی گرو نانک نے چلہ کاٹا تھا۔
کہتے ہیں کہ ایک دن بہلول دریائے دجلہ کے کنارے بیٹھے گیلی ریت کی ڈھیریاں بنا رہے تھے اور ہارون الرشید کی چہیتی ملکہ زبیدہ اپنے محل کے جھروکے سے بڑے انہماک کے ساتھ انہیں دیکھ رہی تھی۔ وہ مٹّی کی ڈھیری بناتے اور پھر خود ہی اسے مسمار کر دیتے۔ ملکہ جھروکے سے اتر کر اپنی سہیلیوں کے ہمراہ دریا کنارے آگئی اور پوچھا ’کیا کر رہے ہو بہلول؟‘۔ بہلول نے ادائے بے نیازی سے کہا ’جنت کے محل بنا رہا ہوں‘۔
ملکہ نے سوال کیا ’اگر کوئی تم سے یہ محل خریدنا چاہے تو فروخت کرو گے؟‘۔ بہلول نے کہا ’ہاں ہاں، کیوں نہیں، میں بناتا بھی ہوں اور فروخت بھی کرتا ہوں‘۔ ملکہ نے پوچھا، ’بتاؤ ایک محل کی قیمت کیا ہے‘۔ بہلول نے بے ساختہ کہا ’تین درہم‘ (بعض لوگوں نے ایک درہم بھی لکھا ہے)۔ ملکہ کے حکم پر بہلول کو تین درہم اسی وقت ادا کر دیے گئے۔ یہ واقعہ ملکہ نے اپنے شوہر خلیفہ ہارون الرشید کو بتایا جسے خلیفہ نے مذاق میں ٹال دیا، لیکن رات کو ہارون نے خواب میں جنت کے مناظر دیکھے جن میں آبشاروں اور مرغزاروں کے علاوہ خوبصورت محلات بھی شامل تھے۔ سرخ یاقوت کے ایک محل پر اس نے زبیدہ کا نام بھی لکھا دیکھا۔ ہارون نے سوچا کہ دیکھوں تو سہی کیوں کہ یہ میری بیوی کا گھر ہے۔ وہ محل میں داخل ہونے کے لیے جیسے ہی دروازے پر پہنچا، دربان نے اسے روک لیا۔ ہارون الرشید کہنے لگا، اس پر تو میری بیوی کا نام لکھا ہے، اس لیے مجھے اندر جانا ہے، دربان نے کہا ’نہیں، یہاں کا دستور الگ ہے، جس کا نام ہوتا ہے صرف اسی کو اندر جانے کی اجازت ہے، لہٰذا آپ کو داخل ہونے کی اجازت نہیں‘۔ جب دربان نے ہارون کو پیچھے ہٹایا تو اس کی آنکھ کھل گئی لیکن بیدار ہونے پر خیال آیا کہ اللہ تعالیٰ نے زبیدہ کے حق میں بہلول کی دعا قبول کر لی ہے، چنانچہ وہ ساری رات اسی افسوس میں کروٹیں بدلتا رہا۔
اگلی شام وہ بہلول کو تلاش کرتا دریا کنارے پہنچ گیا۔ بہلول ایک جگہ بیٹھے اسی طرح مکان بنا رہے تھے۔ ہارون نے پوچھا، کیا کر رہے ہیں، بہلول نے کہا، جنت کے محل بنا رہا ہوں۔ ہارون نے پوچھا، بیچو گے تو بہلول نے کہا، ہاں ہاں، کیوں نہیں، میں بناتا بھی ہوں اور فروخت بھی کرتا ہوں۔ ہارون نے سوال کیا کہ بتاؤ ایک محل کی قیمت کیا ہے، تو بہلول نے جواب دیا، تیری پوری سلطنت۔ ہارون الرشید نے کہا، اتنی قیمت تو میں نہیں دے سکتا، کل تو آپ تین درہم کے بدلے دے رہے تھے اور آج پوری سلطنت مانگ رہے ہیں۔ بہلول دانا نے کہا، خلیفہ، کل بن دیکھے معاملہ تھا اور آج تم محل دیکھ کر آئے ہو۔ خلیفہ یہ سن کر مایوسی سے گھٹنوں کے بل بہلول دانا کے سامنے بیٹھ گیا اور کہنے لگا حضرت آپ مجھ سے میری ساری سلطنت لے لیں، لیکن مجھے ایک محل دے دیں۔ جب بہلول دانا نے خلیفہ کی عاجزی دیکھی تو کہا کہ میں تمہاری اس سلطنت کا کیا کروں گا۔ اس دنیا کی محبت تو بہت سے گناہوں کی جڑ ہے، جاؤ اپنی سلطنت اپنے پاس رکھو، میں اس محل کو بھی تمہارے لیے تین درہم میں فروخت کرتا ہوں۔
معروف بزرگ سیدنا سری سقطی فرماتے ہیں، ایک بار مجھے قبرستان جانا ہوا۔ وہاں میں نے بہلول دانا کو دیکھا کہ ایک قبر کے قریب بیٹھے مٹی میں لوٹ پوٹ ہو رہے ہیں۔ میں نے پوچھا، آپ یہاں کیوں بیٹھے ہیں۔ جواب ملا، میں ایسی قوم کے پاس ہوں جو مجھے اذیت نہیں دیتی اور اگر میں غائب ہو جاؤں تو میری غیبت بھی نہیں کرتی۔ ایک دن بہلول بازار میں بیٹھے تھے کہ کسی شخص نے پوچھا، بہلول کیا کر رہے ہو تو بہلول نے کہا کہ بندوں کی اللہ سے صلح کرا رہا ہوں۔ اس شخص نے کہا کہ پھر کیا بنا، بہلول نے کہا کہ اللہ تو مان رہا ہے لیکن بندے نہیں مان رہے۔ کچھ عرصہ بعد اسی شخص کا ایک قبرستان کے پاس سے گزر ہوا تو دیکھا، بہلول قبرستان میں بیٹھے ہیں۔قریب جا کر پوچھا، بہلول کیا کر رہے ہو۔ بہلول نے کہا بندوں کی اللہ سے صلح کرا رہا ہوں۔ اس شخص نے کہا کہ پھر کیا بنا، بہلول نے کہا کہ بندے تو مان رہے ہیں مگر آج اللہ نہیں مان رہا۔

Post a Comment

0 Comments