-->

ADLIA KO 21 TOPON KE SALAMI
























عدلیہ کے حوصلے کو 21توپوں کی سلامی-محمد بلال غوری 
عدالتی اختیارات کا غلط استعمال تب ہوتا ہے جب جج قا نون کے بجائے اپنے سیاسی خیالات پر عمل کرنے لگتے ہیں۔امریکی قانون دان لامار ایس سمتھ چلی لاطینی امریکہ کا ملک ہے جس نے اسپین سے آزادی حاصل کی۔1970میں انتخابات ہوئے تو سوشلسٹ پارٹی کے سربراہ سینیٹر سلواڈور آلندے نے کامیابی حاصل کی۔اقتدار میں آتے ہی سلواڈور کے خلاف سازشوں کا سلسلہ شروع ہو گیا ۔ا مریکی صدر نکسن کی اجازت سے سی آئی اے نے چلی کی منتخب حکومت کو غیر مستحکم کرنے کے لیئے ایک خفیہ آپریشن کا آغاز کیا جس کے تحت اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے احتجاجی مہم شروع کروائی گئی۔جلسے ،جلوسوں اور ہڑتالوں کا سلسلہ بڑھتا چلا گیا۔سی آئی اے کی منصوبہ بندی رنگ لائی اور سول حکومت کے خلاف چلی کی فوج اور عدلیہ نے گٹھ جوڑ کر لیا۔اعلیٰ عدلیہ کے جج صاحبان نے سیاستدانوں سے متعلق تضحیک آمیز ریمارکس دینا شروع کر دیئے ،فوج نے میڈیا کے ذریعے حکومت کے خلاف پراپیگنڈا کیا اور یوں بے چینی بڑھتی چلی گئی۔11ستمبر1973ء کو چلی کی فوج نے اپنے ملک کے آئین کو بوٹوں تلے روند ڈالا اور منتخب حکومت کے خلاف بغاوت کر دی ۔ملک کے محافظوں نے اپنے ہی ایوان صدر پر بمباری کی ،سلواڈور آلندے نے مستعفی ہونے سے انکار کر دیا مگر حالات سے دل برداشتہ ہو کر خود کشی کر لی۔جنرل آگستو پنوشے نے بندوق کے زور پر اقتدار سنبھال لیا تو پہلے سے ’’آن بورڈ‘‘ عدلیہ نے اس غیر قانونی حکومت کو نظریہ ضرورت کے تحت جائز قرار دیدیا۔
اس کے بعد سیاسی کارکنوں کی زندگی اجیرن کر دی گئی ،اظہار رائے کی آزادی اور بنیادی انسانی حقوق سلب کر لیئے گئے ۔آئندہ 17برس تک قانون کیساتھ کھلواڑ ہوتا رہا اور اعلیٰ عدلیہ کے جج صاحبان مٹی کے مادھو بنے خاموش بیٹھے رہے یا پھر جنرل آگستو پنوشے کے احکامات کی توثیق کرتے رہے۔جب ملک میں جمہوریت بحال ہوئی تو جنرل آگستو پنوشے کو گرفتار کرکے اس کا ٹرائل شروع کیا گیا۔جنرل پنوشے کے خلاف 300سے زائد الزامات کے تحت فرد جرم عائد کی گئی اور گھر پر نظر بند کر دیا گیا۔نظر بندی کے دوران ہی جنرل پنوشے کا انتقال ہو گیاتو حکومت نے سربراہ مملکت کا درجہ دیتے ہوئے آخری رسومات سرکاری طور پر منعقد کرنے سے انکار کر دیا اور ستمبر 2013ء میں آمریت کی 40ویں برسی کے موقع پر عدلیہ نے ایک جرات مندانہ فیصلہ کیا۔اعلیٰ عدلیہ و ماتحت عدلیہ کی جانب سے جاری کیئے گئے ایک کھلے خط میں جنرل پنوشے کا ساتھ دینے اور منتخب سول حکومت کا آلہ کار بننے پر معافی مانگی گئی ۔اس خط میں کہا گیا کہ ججز نے انسانی حقوق کے محافظ ہونے کا اپنا اصل کردار ہی ترک کیئے رکھا اور ایسے فیصلے دیئے جو عدلیہ کے لیئے باعث شرمندگی ہیں۔ یہ تو تھی چلی کی عدلیہ جس نے حساسیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے شرمناک کردار پر معافی مانگ لی مگر بھوٹان کی عدلیہ بہت بے حس اور بے شرم محسوس ہوتی ہے۔چلی میں تو ایک مرتبہ مارشل لا لگا مگر بھوٹان میں اب تک چار بار آئین کو پامال کیا جا چکا ہے اور ہر مرتبہ عدلیہ نے آمریت کی باندی کا کردار ادا کیا ہے ۔’’رہبروں ‘‘ کاتختہ الٹنے والے’’راہزنوں‘‘ کو ہربار عدلیہ نے نظریہ ضرورت کے تحت توثیق بخشی۔ایک ڈکٹیٹر نے تو ساری حدیں ہی عبور کر لیں۔
اس نے اپنے دور آمریت کے دوران ایک مرتبہ پھر ’’مارشل لا پلس‘‘ لگا کر اعلیٰ عدلیہ کے جج صاحبان کو محبوس کر دیا ۔ جمہوریت پسند سیاستدانوں نے عدلیہ کے حق میں تحریک چلائی اور نہ صرف بھوٹانی غاصب جرنیل کو مستعفی ہونے پر مجبور کر دیا بلکہ معزول کیئے گئے ججز بھی بحال ہو گئے۔ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ عدل و انصاف کی ایک نئی صبح خوش جمال کا سورج طلوع ہونے پر بھوٹان کی عدلیہ اپنے ماضی کے شرمناک کردار پر معافی مانگتی اورآئندہ جمہوریت کے خلاف کسی سازش کا حصہ نہ بننے کا عہد کرتی لیکن ایسا نہیں ہوا۔آئین شکن ڈکٹیٹر کی مشکیں کسنے اور اسے نشان عبرت بنانے کے بجائے ملک سے فرار ہونے دیا گیا اور پھر اس کے باقی جرائم تو ایک طرف ،جج صاحبان کو نظر بند کرنے کا مقدمہ بھی داخل دفتر ہو گیا۔
ایک مرتبہ پھر جمہوریت کے خلاف سازشوں کا سلسلہ شروع ہوا تو بھوٹان کی عدلیہ نے غیر جمہوری قوتوں سے ہاتھ ملا لیا اور انہیں سیاستدانوں کو قانون کے کٹہرے میں لا کھڑا کیا جن کی جدوجہد کی بدولت ان جج صاحبان کو اپنی عدالتوں میں دوبارہ بیٹھنے کا موقع ملا۔دیکھتے ہی دیکھتے عدالتیں ریئلٹی شوز میں بدل گئیں ،دوران سماعت جگت بازی عروج پر پہنچ گئی ،منتخب حکومت کے خلاف انتہائی گھٹیا الفاظ پر مبنی ریمارکس دیئے جانے لگے ،جج صاحبان قانون کے بجائے اپنے سیاسی خیالات یا پھر غیر جمہوری قوتوں کے مطالبات کے مطابق فیصلے صادر کرنے لگے۔کئی بار تو ایسا بھی ہوتا کہ میڈیا میں آنے والی خبروں کے ذریعے جج صاحبان کو معلوم ہوتا کہ انہوں نے اپنے فیصلے میں کیا لکھا ہے۔بھوٹانی ججوں کے الفاظ چغلی کھاتے کہ وہ سول حکومت کے خلاف اُدھار کھائے بیٹھے ہیں ۔اس قدر ننگی جانبداری پر جب عدلیہ تنقید کا نشانہ بنتی تو جج صاحبان ٹس سے مس نہ ہوتے اورالٹا داد و ستد کی طلب کرتے۔میرے خیال میں داد تو بنتی ہے ،ان کے حوصلے اور ہمت کو اکیس توپوں کی سلامی کہ اسقدر لعن طعن کے باوجود بد مزہ نہیں ہوتے اور فوجی جنتا کے تھمائے ایجنڈے پرخشوع و خضوع سے کاربند ہیں ۔