جی ٹی ایس سے پشاورریپڈ بس تک کا سفر
پشاورکے اندرون جی ٹی روڈ سے حیات آباد تک سنٹرل میڈیا میں نصب سٹریٹ لائٹس کے کھمبوں پر آویزاں پینا فلیکس میں اہلیان پشاور کو دی گئی خوشخبری کہ 19 اکتوبر سے ریپڈ بس یعنی بی آر ٹی منصوبہ کا آغاز ہو چکا ہے اس خوشخبری نے حقیقی معنوں میں اہلیان پشاور کو دلی سکون پہنچایا اور اس طرح بے شک دیر سے ہی سہی پر اہل پشاور کو ایک تحفہ دیدیا گیا کہ جس کی ضرورت کافی شدت سے محسوس کی جارہی تھی‘ 19 اکتوبر کو وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا پرویز خٹک نے ایک رنگا رنگ تقریب میں اس کا سنگ بنیاد رکھا جس کے بعد پراجیکٹ پر تیزی سے کام شروع کر دیا گیاہے چھ ماہ کی قلیل مدت میں اس کی تکمیل کا عزم یقیناًنہ صرف اہلیان پشاور بلکہ دیگر شہروں و اضلاع سے آنے والوں کے لئے بھی اطمینان بخش ہے کہ اس طرح عوام کی مشکلات یقینی طور پر چھ مہینے ہی رہیں گی اور اس کے بعد یقیناًپشاور میں نہ صرف سفر آسان ہو جائے گا بلکہ صوبائی دارالحکومت کے مسائل میں ایک بڑا مسئلہ ٹریفک اژدھام بھی ختم ہو جائے گا بس چھ ماہ کی تکلیف گوارا کرنی ہو گی پھر اس کے بعد سفری سہولتوں سے فائدہ اٹھائیے پشاور کے قدیمی شہریوں اور خاص طور پر بزرگ شہریوں کو ابھی تک یاد ہوگا کہ قیام پاکستان کے بعد مقامی ٹرانسپورٹرز نے جب یہاں من مانیاں شروع کر دیں تب 50ء کی دہائی میں گورنمنٹ نے پبلک ٹرانسپورٹ کے لئے اپنی سروس مہیا کی جسے جی ٹی ایس کا نام دیا گیا .
اس طرح قیام پاکستان کے فوری بعد نہ صرف اہلیان پشاور کو نجی بسوں کے ڈرائیورز کی من مانیوں سے نجات ملی بلکہ عوام کو ایک سستی سفری سہولت بھی میسر آگئی یہ سروس صرف شہر کے لئے ہی نہ تھی بلکہ شہر سے باہر جانے والوں کو بھی یہ سہولت فراہم کی گئی مگر افسوس کہ جی ٹی ایس کے کرتا دھرتا ؤں نے اسے اپنی سروس نہ جانا اس میں گھپلے ہونے لگے ‘ چاہے وہ گھپلے بس ٹائروں کی صورت میں ہوتے یا ورکشاپ کے اندر ‘ اسی طرح بس سروس کے دیگر شعبوں میں تعینات ملازمین نے بھی بہتی گنگا میں ہاتھ دھوئے‘ ٹکٹ والا بغیر ٹکٹ وصولیاں کرتا رہا انہی گھپلوں کے باعث جی ٹی ایس جو کہ باقاعدہ ایک ادارہ تھا مسلسل خسارے میں جانے لگا‘ آج سے تقریباً دو عشرے قبل حکومت نے مسلسل خسارے کے پیش نظریہ سروس نہ صرف بند کر دی بلکہ بسوں کی نیلامی تک کر دی گئی اور پھر دنیا نے دیکھا کہ وہ بسیں جن پر آئے روز مرمت کے بہانے بھاری اخراجات آتے رہتے تھے آج بیس پچیس برس بعد بھی سڑکوں پر رواں دواں ہیں بس انہیں پینٹ کر دیا گیا ان پر مختلف تعلیمی اداروں کے نام لکھ دیئے گئے‘ بہرحال جی ٹی ایس کے بعد نہ صرف پشاور بلکہ صوبہ بھر میں نجی پبلک ٹرانسپورٹ سروس شروع ہوئی‘ باڑہ اور مزدا بسوں کی ایسی لہر آئی کہ سڑکوں پر تیز رفتاری سے دوڑتی ہوئی یہی بسیں نظر آنی شروع ہوگئیں اور جب مقابلے میں سرکاری سروس نہ رہی تو پھر تو ٹرانسپورٹروں نے وہ من مانیاں دکھائیں کہ غلط ڈرائیونگ کے باعث بندے تک مارے جانے لگے مگر ان بسوں کے ڈرائیوروں کی غیر ذمہ دارانہ ڈرائیونگ میں کوئی کمی نہ آئی‘ آبادی میں اضافہ اور اور صوبائی دارالحکومت ہونے کے باعث پشاور کی سڑکیں جتنی پھیلائی گئیں‘ بسوں ‘ رکشوں ‘ ٹیکسیوں اورنجی گاڑیوں و موٹر سائیکلوں کے باعث یہ سڑکیں اتنی ہی سکڑتی گئیں صورتحال یہ بن گئی کہ پشاور میں ٹریفک رینگنے لگی‘ عوام اور خاص طور پر میڈیا کی جانب سے بھی شور اٹھا ‘ مسئلہ کی نشاندہی کی گئی اور تب صوبائی حکومت نے بھی اس جانب توجہ دی‘ مشاورتی محفلیں ہوئیں اور پھر ریپڈ بس کا اعلان کر دیا گیا اور اب تو باقاعدہ منصوبہ کا سنگ بنیاد بھی رکھ دیا گیا جو کہ وزیر اعلیٰ نے مشین کے ذریعے ڈرلنگ کرکے رکھا‘ چھ ماہ کے اندر چمکنی سے حیات آباد تک اس منصوبے کی تکمیل سے نہ صرف ٹریفک اژدھام سے چھٹکارہ ملے گا بلکہ شہر کی ماحولیاتی و جمالیاتی خوبصورتی بھی سامنے آئے گی تخمینہ لاگت 49.346 ارب روپے رکھا گیا ہے جس میں تین سو ائیر کنڈیشنڈ بسیں چلائی جائیں گی اس میں پندرہ کلومیٹر حصہ زمینی سطح جبکہ آٹھ کلومیٹر زیر زمین ہوگا۔ 68 کلومیٹر فیڈر روٹس سے شہری مستفید ہونگے ہر بس سٹاپ پر سائیکل پارکنگ کی سہولت مہیا کی جائے گا اور ہرسٹاپ کے درمیان فاصلہ دومنٹ ہو گا سرکاری اعداد وشمار کے مطابق روزانہ تین لاکھ ساٹھ ہزار مسافر سفر کر سکیں گے اور خوشی کی بات یہ بھی ہے کہ بسوں میں خواتین کے لئے الگ سے کیبن ہوں گے‘ منصوبہ کی تکمیل سے ایک مرتبہ پھر اہلیان پشاور کو نجی بسوں کے ان ٹرینڈ ڈرائیورز اور کنڈیکٹرز کی من مانیوں سے نجات ملے گی تاہم نجی بسوں کے حوالے سے بھی حکومت کو سوچنا ہوگا کہ کہیں اس منصوبے سے یہ لوگ بیروزگار تو نہیں ہو جائیں گے‘ہم تجویز دیں گے کہ حکومت ان بسوں کا رخ دیہات کی طرف کر دے‘ چارسدہ روڈ‘ کوہاٹ روڈ کے ساتھ شہر میں دیگر کئی ایسے روٹس ہیں جہاں ان بسوں کی اشد ضرورت ہے اس طرح مزدا بسوں کے ڈرائیورز وکنڈیکٹرز کو بیروزگار ی سے بچانے کے لئے مذکورہ روٹس پر چلایا جاسکتا ہے اسی طرح جب جی ٹی روڈ پر تعمیراتی کام تیز ہو گا تو یقیناًاس سے عوامی مشکلات بڑھیں گی اس کے لئے متبادل روٹس تو دیئے جارہے ہیں تاہم ضرورت اس امر کی ہے کہ نہ صرف جی ٹی روڈ پر بلکہ عارضی طور پر ان متبادل روٹس پر بھی ٹریفک پولیس کی اضافی نفری تعینات کی جائے اور اگر ایسا نہ کیا گیا تو عوام ایک نہ سہنے والی اذیت سے دوچار ہو جائیں گے یہ بھی ذہن میں رہے کہ متبادل روٹس پر تجاوزات کے باعث کارپارکنگ بھی ایک بڑا مسئلہ ہو گی اور اس کی ایک اور وجہ یہ بھی ہے کہ کسی طور پر یہ متبادل روٹس جی ٹی روڈ کا متبادل نہیں ہوسکتے‘ لوگ تو جی ٹی روڈ پر بھی گاڑیاں پارک کر دیتے ہیں اگر متبادل روٹس پر بھی اسی طرح گاڑیاں پارک کردی گئیں تو جو ٹریفک جام ہوگا کسی کو اس کے حل کے لئے کچھ سلجھائی نہیں دے گا اس لئے متبادل روٹس پر کارپارکنگ بند کرا دی جائے اور ٹریفک کی بھاری نفری کی تعیناتی بہت ہی ضروری ہے .
اس طرح جب متبادل روٹس کے استعمال کی ضرورت پڑے تب سے پہلے ہی ان روٹس پر تجاوزات ہٹا دی جائیں چھ ماہ کے لئے شہریوں کو بھی اپنی عادات تبدیل کرنا ہونگی کہیں بھی جائیں‘ چاہے وہ سکول‘ کالج‘ یونیورسٹی‘ دفاتر یا دکانیں ہوں گھر سے کم از کم ایک گھنٹہ قبل ہی احتیاط کے طور پر نکلنا ہو گا اسی طرح تمام شہری اداروں کو آپس میں باہمی رابطے رکھنا ہوں گے تاکہ گاڑیاں رکنے نہ پائیں بی آر ٹی منصوبہ پر کام کے ساتھ ساتھ معمولات بھی جاری رہیں ‘ چونکہ اس منصوبے کی تکمیل سے اہلیان پشاور کو ایک بڑا فائدہ ملنے والا ہے تو اس کے لئے کچھ بڑی تکلیف اٹھانی پڑے تو خندہ پیشانی اور حکمت سے اٹھائی جائے کہ آفر اس کے ثمرات سے اہلیان پشاور نے خاص طور پر مستفید ہونا ہے منصوبہ کے دوران اس بات کا بھی خیال رکھنا ہو گا کہ اس دوران تجارتی سرگرمیاں متاثر نہ ہونے پائیں اس لئے ایک مرتبہ پھر ٹریفک پولیس پر ہی بھاری ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں کہ وہ کسی صورت بھاری ٹریفک کا شہر میں دن کے وقت داخلہ نہ ہونے دے ‘ ہیوی ٹریفک کے لئے خاص منصوبہ بندی کی جائے اور رات گئے ہی بھاری ٹریفک جو کہ خاص طور پر اجناس لئے شہر میں داخل ہوتی ہے داخلے کی اجازت ہو اور پھر صبح ہونے سے قبل ہی واپس بھی چلی جائے ‘ بہتر ہوتا کہ اس حوالے سے ٹریفک پولیس کو خصوصی ٹریننگ دیدی جاتی‘ اس میں کوئی دوآراء نہیں کہ جب ریپڈ بس چلے گی تو ٹریفک کے حوالے سے عوام جس اذیت سے آج دو چارہیں اس میں نمایاں کمی آئے گی‘ بظاہر چھ مہینے میں پراجیکٹ کی تکمیل بہت مشکل دکھائی دیتی ہے اور اگر صوبائی حکومت نے اپنا ہی دیا ہوا ہدف پورا کر لیا اور وہ بھی مقررہ ٹائم پر تو یقیناًیہ صوبائی حکومت کسی بھی بڑی کامیابی ہو گی جس کا فائدہ وہ آئندہ انتخابات کے دوران اٹھا سکے گی اور اگر اس دوران جب یہ منصوبہ بھی مکمل نہ ہوا ہو اور حکومت بھی بدل گئی تو یقیناًاس کے منفی اثرات کا بھی خطرہ بہرحال پی ٹی آئی حکومت کو رہے گا تمام تر تجاویز کو ردّ کرتے ہوئے حکومت نے اس منصوبے کے تینوں فیزز پر بیک وقت کام شروع کر دیا ہے یہ کام کیا رنگ لائے گا یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا‘ یعنی کہا جاسکتا ہے کہ وقت کم اور مقابلہ سخت ہے اس منصوبے کو بہت ہی احتیاط اور جامع ذمہ داری سے پورا کرنے کی ضرورت ہے کہیں ایسا نہ ہو کہ لینے کے دینے پڑ جائیں‘ گڑھے کھودے جائیں اور تعمیر ہی مکمل نہ ہونے پائے ‘ کیونکہ پشاور میں ٹریفک کا ایک ہی حل بی آر ٹی منصوبہ ہے یہ منصوبہ جہاں صوبہ کی تاریخ کا ایک بڑا منصوبہ ہے وہیں یہ پشاور کے لئے ایک میگا پراجیکٹ بھی ہے دعوے کئے گئے کہ یہ منصوبہ عالمی معیار کا ہوگا تو اس کے لئے ضروری ہے کہ اسے حقیقت میں بھی عالمی سطح کا منصوبہ بنادیا جائے دیکھا جائے کہ ایک معیاری ٹرانسپورٹ سروس میں کیا کیا خوبیاں ہوتی ہیں وہ خوبیاں اس پراجیکٹ میں شامل کر دی جائیں پشاور ریپڈ بس کے حوالے سے عوام سے رائے لی جائے تو شاذ ہی کوئی اس کی مخالفت کریگا‘ اسے شہر کی ترقی کے منصوبے سے تعبیر کیا جارہا ہے کسی نے اگر مخالفت کی تو وہ بھی چند وہ تاجر ہوں گے جو اس منصوبے کی راہ میں آتے ہیں اور متاثر ہو رہے ہیں یہ علیحدہ بات ہے کہ حکومت انہیں تلافی کی صورت میں بھاری رقومات ادا کر رہی ہے اور اس کے لئے آٹھ ارب روپے مختص بھی کئے جاچکے ہیں واضح رہے کہ منصوبہ کی افادیت جاننے کے بعد اس بات کے امکانات کافی ہیں کہ متاثرین بھی اس کی تکمیل کے بعد اس کی حمایت کریں‘ دنیا کے بڑے بڑے شہروں میں اس وقت میٹرو بسیں چل رہی ہیں پشاور کو بھی اس کی اشد ضرورت تھی اور اسی ضرورت کے پیش نظر ریپڈ بس لائی جارہی ہے اس کے فائدوں کا شمار کیا جائے تو وہ بھی بہت ہیں جیسا کہ پہلے بھی کہا کہ ٹریفک اژدھام ختم ہو گا اسی طرح ایک باعزت اور آرام دہ سواری بھی تو میسر ہو گی ‘ کم وقت میں سفر آسانی سے طے ہوگا‘ نجی کاروں کا استعمال کم ہونے سے آلودگی میں بھی کمی کے واضح امکان ہیں‘ پشاور کی سڑکوں پر کھٹارہ ‘ خستہ حال پرانی اور بوسیدہ بسوں نے قبضہ کر رکھا ہے اس بات کا اندازہ اس سے بھی لگا لیں کہ کئی عشروں سے یہاں نئی بس ہی نہ آئی‘ رکشہ ‘ ٹیکسی گاڑیوں اور خاص طور پر ان رجسٹرڈ ٹیکسی کاروں اور موٹرسائیکلوں نے بھی تو اودھم برپا کر رکھا ہے یعنی کے پشاور کی سڑکوں پر چلنے والی آدھی سے زائد ٹریفک غیر قانونی ہے بی آر ٹی سے یقیناًان گاڑیوں کی تعداد میں بھی کمی آئے گی واضح رہے کہ پراجیکٹ کی بروقت تکمیل کسی بڑے چیلنج سے کم نہیں ہے اسی طرح متبادل روٹس کے حوالے سے آگاہی یعنی بینرز کا نمایاں آویزاں کرنا بہت اہم ہے پرانی ٹرانسپورٹ جن میں مزدا بسیں‘ باڑہ بسیں اور رکشے بھی شامل ہیں ان کے حوالے سے منصوبہ بندی ایسی کی جائے کہ پراجیکٹ کی تکمیل کے بعد بھی شہریوں کے لئے مسائل پیدا نہ ہونے پائیں۔
(بشکریہ آج)