اب پورے شریف خاندان کو نشان عبرت بنانے کی منصوبہ بندی
ایک جاندار مقابلے کے ذریعے لاہور سے بیگم کلثوم نواز صاحبہ کی سے جیت کے بعد شہباز شریف صاحب کو بالآخر تسلیم کر لینا چاہئے کہ نون کے لاحقے کے ساتھ قائم ہوئی پاکستان مسلم لیگ کا روایتی حامی اپنا ووٹ صرف نواز شریف کو دیتا ہے۔ یہ ووٹ کسی اور کوٹرانسفر نہیں ہو سکتا۔ وہ ”ادارے“ جن کے سامنے سرنگوں ہونے کے لئے وہ اپنے بڑے بھائی کو مستقل قائل کرتے رہتے ہیں، اس حقیقت کو خوب جانتے ہیں۔ NA-120 سے کلثوم نواز کی جیت نے ان کے تجزیے کو ایک بار پھر ”میدان جنگ“ میں درست قرار دیا ہے۔
شریف خاندان کو احتساب کے حوالے سے ”عبرت کا نشان“ بنانا لہٰذا اب مزید ضروری ہو گیا ہے اور گیہوں کے ساتھ گھن بھی پس جایا کرتا ہے۔ ڈاکٹر بابر اعوان صاحب کو شہباز شریف کے ”گھن“ ہونے کی حقیقت کا خوب علم ہے۔ اطلاع اس ضمن میں راولپنڈی کی لال حویلی سے اُٹھے بقراطِ عصر کے پاس بھی کافی مستند ہے۔ ان دنوں ویسے بھی وہ اس ملک میں ”صداقت و امانت“ پر مبنی سیاست کی بالادستی کو یقینی بنانے کے لئے ”پبلک پراسیکیوٹر“ کا رول ادا کر رہے ہیں۔ پانامہ کیس میں بطور ایک فریق اپنا کیس انہوں نے خود لڑا۔ سپریم کورٹ کے عزت مآب ججوں نے ان کے اٹھائے قانونی نکات کی اہمیت کا خوش گوار حیرت سے اعتراف کیا۔
ہمارے آئین میں آرٹیکل 62اور 63کے ذریعے صداقت وامانت کے معیار طے کر دئیے گئے ہیں۔ لال حویلی سے اُٹھے بقراطِ عصر ان کے اطلاق کو اپنا مشن بنائے ہوئے ہیں۔ ان کی محنتِ شاقہ کی بدولت پاکستان کا تیسری بار منتخب ہوا وزیر اعظم سپریم کورٹ کے ہاتھوں نااہل ہوا۔ احتساب بیورو کو اسی بقراطِ عصر نے حدیبیہ پیپرز والا کیس کھولنے پر مجبور کیا۔اس ضمن میں ہمارے ”پبلک پراسیکیوٹر“ کے سپریم کورٹ کے روبرو پیش ہونے سے ایک دن قبل ہی احتساب بیورو نے یہ کیس کھولنے کا اعلان کردیا۔ اس اعلان کے دوسرے دن جب بقراطِ عصر سپریم کورٹ کے روبرو پیش ہوئے تو عزت مآب ججوں کو یقین دلایا کہ ان کی آنے والی نسلیں ان کے تاریخی کردار پر فخر محسوس کریں گی۔
عالمی عدالتی تاریخ میں شاید یہ پہلا موقع تھا جہاں ججوں کے سامنے بجائے کوئی قانونی نقطہ پیش کرنے کے‘ کسی وکیل نے انہیں اپنی ا ولادوں کو فخر محسوس کرنے والے فیصلے سنانے پر اُکسایا۔
حدیبیہ پیپرز والا کیس اب کھلنے والا ہے۔ وہ کھلے گا تو صرف اسحاق ڈار ہی نہیں شہباز شریف صاحب بھی نواز شریف کی طرح ”مجھے کیوں نکالا“ پوچھتے پائے جائیں گے۔ ڈاکٹر بابر اعوان صاحب کے بیان کردہ ”گاڈ فادر ٹو“ کی فراغت کے بعد لال حویلی سے اُٹھے ”پبلک پراسیکیوٹر“ کا اگلا ہدف شاہد خاقان عباسی ہوں گے۔
لال حویلی سے اُٹھے ”پبلک پراسیکیوٹر“ نے اس حوالے سے ابھی تک کوئی ٹھوس قانونی قدم نہیں اٹھایا تو وجہ اس کی صرف اتنی ہے کہ وزیراعظم عباسی فی الوقت "Under Watch" ہیں۔ امید باندھی جارہی ہے کہ ایئرفورس کے ایک شاندار افسر کا جاں نشین اور ایک مرحوم DG-ISI کا داماد-عباسی- بالآخر وہ حقائق دریافت کر ہی لے گا جنہوں نے نواز شریف کو اس ملک کے لئے ”سکیورٹی رسک“ بنایا تھا۔ موصوف اپنی آنکھیں کھول نہ پائے تو قطر سے لائی LNGکی بابت ہوئے معاہدات کی مستند کاپیاں ”پبلک پراسیکیوٹر“ کو فراہم کردی جائیں گی۔ پھر سپریم کورٹ جانے اور شاہد خاقان عباسی۔
فی الوقت شاہد خاقان عباسی کو اطمینان اس لئے بھی میسر ہونا چاہیے کہ بیگم کلثوم نواز اپنی مدمقابل سے صرف 14ہزار ووٹوں کے فرق سے جیتی ہیں۔انہوں نے یہ نشست 25سے30ہزار ووٹوں کی برتری کے ساتھ جیتی ہوتی تو قومی اسمبلی میں موجود نوازشریف کے متوالے وفادار اپنے قائد کو مجبور کرتے کہ بیگم صاحبہ کو شاہد خاقان عباسی کی جگہ وزارتِ عظمیٰ کے منصب پر بٹھا دیا جائے۔
یہ بات لکھنے کے بعد نہایت ذمہ داری سے یہ اطلاع بھی دینا چاہتا ہوںکہ بیگم صاحبہ کو NA-120سے جتوا کر موجودہ قومی اسمبلی سے وزیراعظم منتخب کروانا نوازشریف نے کبھی سوچا ہی نہیں تھا۔ شاہد خاقان عباسی کا انتخاب موصوف نے بہت غور کے بعد صرف 45دنوں کے لئے نہیں بلکہ آئندہ انتخاب کے انعقاد تک کیا تھا۔ شہباز شریف کو بالآخر ان کی جگہ لانے والی بات محض Deceptive Cover تھی۔ اسی باعث تو حمزہ شہباز شریف عباسی کو ووٹ دینے قومی اسمبلی میں تشریف نہیں لائے تھے۔
کسی جماعت کے ٹکٹ سے منتخب ہوا رکن اسمبلی اپنے قائد کے نامزد کردہ امیدوار کے وزیر اعظم کے لئے ہوئے انتخاب کے دوران ”جان بوجھ کر“ غیر حاضر رہے تو اسے فلورکراسنگ والی شقوں کے تحت قومی اسمبلی کی رکنیت کے لئے ”نااہل“ قرار دیا جا سکتا ہے۔ حمزہ شہباز شریف کی شاہد خاقان عباسی کے انتخاب والے دن عدم موجودگی کے بارے میں البتہ یہ سوال اٹھایا ہی نہیں گیا ہے۔ ایسے سوالات سیاست دانوں سے قبل اکثر ہمارے ہمہ وقت مستعد اور صداقت وامانت کے محافظ ”صحافی“ اٹھایا کرتے ہیں۔ انہوں نے بھی یہ سوال نہیں اٹھایا۔ یہ سوال میڈیا میں اٹھے گا بھی نہیں کیونکہ نواز شریف کے پاس مبینہ طورپر صحافیوں کو خریدنے کے لئے ”لفافے“ ہوا کرتے تھے۔ ”خادم اعلیٰ“ کے پاس Mega Projects ہیں۔ عوام کو خلق خدا کی بہتری کے لئے سوچے ان منصوبوں کی اہمیت سے باخبر رکھنے کے لئے صحافتی اداروں کو بہت مہنگے اشتہارات دینا ہوتے ہیں۔ ان اشتہاروں کے ہوتے ہوئے حمزہ شہباز شریف کی شاہد خاقان عباسی کے انتخاب کے دوران آئین میں تعریف کردہ Deliberate Absenceکے بارے میں سوالات اٹھانا کاروباری حوالوں سے کافی Risky ثابت ہو سکتا ہے۔ شہباز شریف لہٰذا اطمینان رکھیں اور ٹھنڈے دماغ سے حدیبیہ پیپرز والا کیس کھل جانے کے بعد اپنے لئے پیدا ہونے والی ممکنہ مشکلات سے بچنے کی تدابیر سوچیں۔
دریں اثناءاپنے سگے بھائی کو البتہ یہ چورن بیچنے سے اجتناب فرمائیں کہ اگر وہ اپنا منہ بند رکھیں تو چودھری نثار علی خان کی معاونت کے ساتھ وہ نواز شریف کو مزید ذلت و رسوائی سے بچا سکتے ہیں۔
NA-120 سے بیگم کلثوم نواز شریف کی جیت کے بعد پورے -جی ہاں میں یہ لفظ بہت سوچنے کے بعد استعمال کر رہا ہوں- شریف خاندان کو بحیثیت مجموعی ”عبرت کا نشان“ بنانے کی کوششیں تیز تر ہو جائیں گی۔ اپنے بھائی کو جنرل مشرف سے بچانے کے لئے شہباز شریف نے چودھری نثار علی خان کے ساتھ مل کر سابق صدر کو آرمی چیف کے ساتھ ہی ساتھ چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف بنانے کا فیصلہ بھی تو کیا تھا۔ حالانکہ باری اصولی بنیادوں پر اس عہدے کے لئے اس وقت کے نیوی چیف کی تھی۔ ایڈمرل فصیح بخاری کو اس عہد ے کے لئے نظرانداز کیا گیا تو انہوں نے احتجاجاً وزیراعظم کو ایک طویل خط لکھ کر اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا تھا۔ اس کے باوجود 12 اکتوبر 1999ءہو کر رہا۔ شہباز شریف کی ”اداروں“ سے بنا کر رکھنے والی ”آنیاں جانیاں“ اپنے بھائی کے کبھی کام نہیں آئی ہیں۔ شہباز صاحب مگر باز نہیں رہتے۔ بھائی کے ڈوبنے کے بعد اپنے بھی ڈوبنے کا بندوبست کرنے میں ہمہ وقت مصروف رہتے ہیں۔